کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو
گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا
نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی
نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں
کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا
لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.