آ لگی ہے ریت دیواروں کے ساتھ
سارے دروازوں کے ساتھ
سرخ اینٹوں کی چھتوں پر رینگتی ہے
نیلی نیلی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے
ریت
ریت رک جا
کھیل طے کر لیں
سنہرے تاش کے پتوں سے درزوں
روزنوں کو بند کر لیں ریت
رک جا
سست برساتیں کہ جن پر دوڑ پڑنا
جن کو دانتوں میں چبا لینا
کوئی مشکل نہ تھا
تو نے وہ ساری نگل ڈالی ہیں رات
رات ہم ہنستے رہے اے ریت
تو دیوانی بلی تھی جو اپنی دم کے پیچھے
گھومتی جاتی تھی
اس کو چاٹتی جاتی تھی رات
ریت کی اک عمر ہے اک وقت ہے
لیکن ہمیں
خود سے جدا کرتی چلی جاتی ہے ریت
ناگہاں ہم سب پہ چھا جانے کی خاطر
یہ ہماری موت بن کر تازہ کر دیتی ہے
یادیں دور کی یا دیر کی
ریت کو مٹھی میں لے کر دیکھتے ہیں
اپنے پوروں سے اسے چھنتے ہوئے
ہم دیکھتے ہیں
اپنے پاؤں میں پھسلتے دیکھتے ہیں
ریت پر چلتے ہوئے
اپنے گیسو سے اٹ جاتے ہیں
بھر جاتے ہیں پیراہن
ہمارے باطنوں کو چیرتی جاتی ہے ریت
پھیلتی جاتی ہے جسم و جاں کے ہر سو
ہم پہ گھیرا ڈالتی جاتی ہے
ریت
ریت اک مثبت نفی تھی
ریت سرحد تھی کبھی
ریت عارف کی اذیت کا بدل تھی
آنسوؤں کی غم کی پہنائی تھی ریت
اپنی جویائی تھی ریت
ریت میں ہر کس تھے ہم
دوسرا کوئی نہ تھا
ریت وہ دنیا تھی جس پر دشمنوں کی
مہر لگ سکتی نہ تھی
اس کو اپنا تک کوئی سکتا نہ تھا
ریت پر ہم سن رہے ہیں آج
پیرانہ سری کی اپنی تنہائی
کی چاپ
دن کے ساحل پر اتر کر
آنے والی رات کے تودے لگاتی
جا رہی ہے
ناگہاں کی بے نہایت کو اڑا لائی ہے
ریت
دل کے سونے پن میں در آئی ہے
ریت
ریت
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 11)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.