آگہی
میں جب طفل مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا
کھڑے ہو کے منبر پہ پہروں سلاطین پارین و حاضر
حکایات شیرین و تلخ ان کی، ان کے درخشاں جرائم
جو صفحات تاریخ پر کارنامے ہیں، ان کے اوامر
نواہی، حکیموں کے اقوال، دانا خطیبوں کے خطبے
جنہیں مستمندوں نے باقی رکھا اس کا مخفی و ظاہر
فنون لطیفہ خداوند کے حکم نامے، فرامین
جنہیں مسخ کرتے رہے پیر زادے، جہاں کے عناصر
ہر اک سخت موضوع پر اس طرح بولتا تھا کہ مجھ کو
سمندر سمجھتے تھے سب علم و فن کا، ہر اک میری خاطر
تگ و دو میں رہتا تھا، لیکن یکایک ہوا کیا یہ مجھ کو
یہ محسوس ہوتا ہے سوتے سے اٹھا ہوں، ہلنے سے قاصر
کسی بحر کے سونے ساحل پہ بیٹھا ہوں گردن جھکائے
سر شام آئی ہے دیکھو تو ہے آگہی کتنی شاطر!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.