آگہی کا دکھ تم کیا جانو
کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے
جب اس کے سانپ
گلے میں لپٹ جاتے ہیں
اور بھینچتے ہیں
سانسیں رک جاتی ہیں
بار بار پھنکارتے اور ڈستے ہیں
صبح و شام رات دن
ان کا زہر رگ و پے میں اتر جاتا ہے
میرے لہو میں سرایت کرتا ہے
میں ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہوں
کانچ کی طرح
ریت کی طرح
کھنکھناتی ہوئی مٹی کی طرح
میری نس نس سے لہو بہتا ہے
شام ہی سے میرے بستر پر آسن جما لیتے ہیں
مجھے سونے نہیں دیتے
کروٹ کروٹ مجھے ڈستے ہیں
لیکن یہ سانپ میں نے خود
اپنے لہو سے پالے ہیں
اپنے وجود کے اندر
شکیبؔ ثروتؔ اور سارہؔ نے بھی پالے تھے
انہیں بھی نیند نہیں آتی تھی
آخر کار وہ ریل کی پٹری پر جا کر
میٹھی نیند سو گئے
شاید یہ
ریل کی سیٹیوں سے بہت ڈرتے ہیں
ریل کی پٹری کو پار نہیں کر پاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.