آہن کو بھی آخر زنگ لگتا ہے
ارادہ آہنی تھا یہ کہ تم کو بھول جائیں گے
تمہارا خوبرو پیکر
کھنکتے قہقہے آواز دل کش
زیر و بم لہجے کا وہ زیرک نگاہیں
انا پرور اپولو ہو کوئی مغرور یونانی
وہ آنکھیں بے تأثر جو ہر اک جذبہ چھپا لینے کی ماہر تھیں
بہت گمبھیر خاموشی کو اوڑھے
یوں کہ جیسے کرۂ ارضی پہ کوئی دیوتا غلطی سے آ جائے
مگر میرا وظیفہ تھا
فقط راہیں تمہاری دیکھتے رہنا
تمہیں دیکھا تو یہ جانا
فقط اک شخص کا احساس کیسے دل کے صحرا میں
گل لالہ کے کھل اٹھنے کا ضامن ہے
یہ آنکھیں جگنوؤں کا دیپ آخر کیسے بنتی ہیں
شفق گلگوں کسی عارض پہ کیسے پھیل جاتی ہے
کہ دل کی دھڑکنیں کیسے صبا رفتار ہوتی ہیں
وہ ہر اک بات میں تم سے ہی میرا مشورہ لینا
یوں جیسے مملکت میں رب کعبہ کی
فقط تم ہی دوا سارے مرض کی ہو
یوں جیسے راہ گم کردہ مسافر کے سفر میں رہنمائی کو قطب تارہ کوئی ابھرے
کبھی میرے سوالوں کی حماقت پر
وہ مبہم مسکراہٹ زیر لب جیسے
شب تاریک میں بجلی کئی
پل بھر کو چھب اپنی دکھا جائے
تمہاری یہ کرم فرمائیاں معمول تھیں جن کو
محبت کے افق پر جاوداں کرنے کی خواہش اک جسارت تھی
خطا سرزد ہوئی ہم سے
ارادہ آہنی تھا یہ کہ تم کو بھول جائیں گے
مگر یہ بھول بیٹھے ہم
کہ آہن کو بھی آخر زنگ لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.