آئینہ ٹوٹ گیا
ہم نے
چاہا تھا دکھانا کسی عنواں لیکن
آئنہ
ٹوٹ گیا سنگ زنوں کے ہاتھوں
چڑھتے سورج کی تپش
آگ کا دریا جیسے
پھول
مرجھائے ہوئے
بکھرے پڑے ہیں ہر سو
باد صرصر کے تھپیڑوں سے گرے ہوں جیسے
ہر طرف صحن چمن میں ہے
اداسی چھائی
دام
گلچیں کے ہر اک سمت بچھے ہوں جیسے
چیل
کوؤں کے حوالے سے پتا چلتا ہے
مردہ جسموں کی مہک گور غریباں کا سماں
قریہ قریہ
مجھے آسیب زدہ لگتا ہے
کوئی سایہ ہے
کہ رہ رہ کے صدا دیتا ہے
کشتۂ ظلم ہے
یہ آہ و بکا کرتا ہے
نت نئے رنگ سے
ہر روز ستم سہتا ہے
بستیاں
شہر خموشاں کا پتا دیتی ہیں
شہر مظلوم کو
اشکوں سے دعا دیتی ہیں
شہر جلتا ہی رہا یوں ہی
تو پھر خیر نہیں
اونچے محلوں کو بھی
یہ آگ جلا ڈالے گی
قیصر وقت کو
قلاش بنا ڈالے گی
ہے کوئی شمع اندھیرے میں
جلانے والا
موت کو
اپنے کلیجے سے لگانے والا
ہم ہی
تنہا ہیں سر دار اٹھائے سر کو
کوئی مونس
نہ کوئی ہمدم و نگراں اپنا
وحشت شوق میں ہے
چاک گریباں اپنا
ہر قدم ساتھ جہاں وقت کی سچائی ہے
حق پرستوں کی خدا داد پذیرائی ہے
ظلمت شب کی
سیاہی بھی اتر جائے گی
جلوۂ صبح سے
ہر چیز نکھر جائے گی
ہم نے
چاہا تھا دکھانا کسی عنواں لیکن
آئنہ
ٹوٹ گیا سنگ زنوں کے ہاتھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.