آئینے نظر کے گرد ہوئے
دلچسپ معلومات
(30دسمبر 1979ء )
جب درد کے ناتے ٹوٹ گئے
جب منظر منظر پھیلے ہوئے
ان دیکھے لمبے ہاتھوں نے
سب عہد پرانے لوٹ لئے
ماضی کے خزانے لوٹ لئے
سب عشق کے دعوے روٹھ گئے
جاں گنگ ہوئی دل چھوٹ گئے
ہر زخم تمنا راکھ ہوا
جو شعلۂ جاں تھراتا ہوا
شفاف اندھیری راتوں میں
رقصاں تھا فلک کے زینے پر
تھک ہار کے آخر بیٹھ رہا
مٹیالے بے حس ریتیلے ان رستوں پر
وہ رستے
جن پر رشتوں کے
روشن چہرے روپوش ہوئے
وہ جن کے شور شرابے میں
من کی آواز ڈوب گئیں
دل کے ہنگامے سرد ہوئے
آئینے نظر کے گرد ہوئے
وہ رستے بھی کیا رستے تھے
ہر چار طرف
اک دھند کی خاکی چادر تھی
اور اس کے آگے حد نظر تک
پھیلی ہوئی
بے جاں لفظوں
بے مہر یگوں کی
دلدل تھی
وہ شعلۂ رقصاں حیراں تھا
وہ دیدۂ حیراں گریاں تھا
وہ ذہن پریشاں لرزاں تھا
اک دل کا نگر سو ویراں تھا
اک راہی تھا جو ان بے مہر فضاؤں میں
شوق پرواز سے
خوئے سفر کی بیتابی سے ہراساں تھا
کچھ چاند کی مدھم کرنیں تھیں
جو درد کے سارے رازوں سے
واقف تھیں مگر
ان مٹیالے بے حس گدلے
رستوں سے
وہ بھی گریزاں تھیں
- کتاب : Aatish Zeer-e-paa (Pg. 34)
- Author : Sajidah Zaidi
- مطبع : Sajidah Zaidi, Aligarah (1995)
- اشاعت : 1995
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.