اور پھر
رات کی بساط الٹ گئی
مسافروں نے ایک سال کے
پرانے چہرے پھینک کر
نئے لگا لئے
کتنے خوش نصیب ہیں جن کے پاس
کوئی آئنہ نہیں
جن کے پاس
وقت صرف وقت ہے
کوئی سلسلہ نہیں
بھلا نہیں برا نہیں
کتنے خوش نصیب ہیں
ایک سال میں
سب بدل گئے
زمیں کی کوکھ تخم ریزیوں کی منتظر ہے
پچھلی فصل کٹ گئی
رات کی بساط الٹ گئی
سلیمؔ اک ازل کی چیخ
رات کی بساط الٹ گئی
چلو سمیٹ لیں
جھلملاتے عکس پر نشاں شباہتیں
بوند اشک کی
چشم مہرباں سے بوند ایک اشک کی
ورنہ روز حشر
اپنے اپنے مرقدوں سے
کس طرح اٹھائے جائیں گے
کیسا سانحہ اپنے آپ سے
کس قدر الگ ہیں ہم
کیسا سانحہ ہے یہ
کیسا سانحہ ہے یہ
سرد رات
کھڑکیوں میں سرد تیرگی
تیرگی کے آئنہ تلے
اک فضائے لا مکاں
عمیق کس قدر عمیق
بسیط کس قدر بسیط
میری دست میں سے دور
میری روح پر محیط
شجر شجر میں دشت و کوہ میں رواں دواں
ہمارے جسم کا لہو
ایک سیل
سیل بے کراں
مسافروں کی بھیڑ سے الگ
مجھ سے بے خبر
تم سے بے نیاز
ہمارے عکس بے حجاب
دور دور پر فشاں
ان کی اپنی زندگی
ان کے خواب
اک کرن کی چھوٹ سے
سبز سرخ نیل گوں بنفشئ
کتنے رنگ کیسے کیسے نقش ناتمام
جنبش نگاہ سے بنے
جنبش نگاہ سے پگھل گئے
- کتاب : shab khuun (8) (rekhta website) (Pg. 14)
- اشاعت : 1967
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.