آج
کار فرما پھر مرا ذوق غزل خوانی ہے آج
پھر نفس کا ساز گرم شعلہ افشانی ہے آج
پھر نگاہ شوق کی گرمی ہے اور روئے نگار
پھر عرق آلود اک کافر کی پیشانی ہے آج
پھر مرے لب پر قصیدے ہیں لب و رخسار کے
پھر کسی چہرے پہ تابانی سی تابانی ہے آج
حسن اس درجہ نشاط حسن میں ڈوبا ہوا
انکھڑیاں بے خود شمیم زلف دیوانی ہے آج
لرزش لب میں شراب و شعر کا طوفان ہے
جنبش مژگاں میں افسون غزل خوانی ہے آج
وہ نفس کی زمزمہ سنجی نظر کی گفتگو
سینۂ معصوم میں اک طرفہ طغیانی ہے آج
یاں بایں عالم غرور یوسفیت بھی نہیں
واں زلیخائی بہ عزم چاکدامانی ہے آج
واں اشارے ہیں بہک جانا ہی عیش ہوش ہے
ہوش میں رہنا یقیناً سخت نادانی ہے آج
کش مکش سی کش مکش میں ہے مذاق عاشقی
کامراں سی کامراں ہر سعئ امکانی ہے آج
حسن کے چہرے پہ ہے نور صداقت کی دمک
عشق کے سر پر کلاہ فخر انسانی ہے آج
شوق سے موقع شناسی کی توقع بھی غلط
میں نے ان کی شکل بھی مشکل سے پہچانی ہے آج
- کتاب : Kullyat-e-majaz (Pg. 173)
- Author : Asrarul Haque Majaz
- مطبع : Kitabi Duniya (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.