آج کل
ہر سر میں امتحان کا سودا ہے آج کل
ہر دل میں فیل ہونے کا دھڑکا ہے آج کل
پرچوں کے آؤٹ ہونے کا چرچا ہے آج کل
کوئی نہیں کسی کی بھی سنتا ہے آج کل
منی کی آنکھ نم ہے تو منا کے دل میں غم
بے چینیوں میں کوئی کسی سے نہیں ہے کم
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے کوئی کتاب
کوئی یہ سوچتا ہے کہ اب آئے گا عتاب
پڑھتا ہے رات بھر کوئی جغرافیہ کا باب
پنسل سے سوختہ پہ ہے لکھتا کوئی جواب
ہر ذی شعور کھیل کے میداں سے دور ہے
پڑھنے سے کوئی اور کوئی لکھنے سے چور ہے
انجم کی آنکھ نم ہے تو فردوس ہیں اداس
محسنؔ یہ سوچتے ہیں کہ ہوں گے یہ کیسے پاس
عذرا کی یہ دعا ہے کہ آ جائے رٹنا راس
ہر ذہن میں ہے خوف تو ہر دل میں ہے ہراس
کوئی نظر میں موت کا نقشہ لئے ہوئے
بیٹھا ہے کوئی ہاتھ میں بستہ لئے ہوئے
کھانے کی فکر ہے نہ ہے فٹ بال کا خیال
چہرے پہ ہر نفس کے ہے تحریر دل کا حال
اس بار فیل گر ہوئے جینا ہوا محال
ابو کے مار پیٹ سے اترے گی میری کھال
یاروں کو کس طرح سے منہ اپنا دکھائیں گے
اور کس طرح سے منزل امید پائیں گے
باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں اس جہان میں
جو فرق آنے دیتے نہیں اپنی آن میں
سینے پھلا پھلا کے نکلتے ہیں شان میں
جیسے کہ کوئی خطرہ نہ ہو امتحان میں
یہ لوگ زندہ دل ہیں بہادر ہیں شیر ہیں
جو فیل ہو کے ہوتے ہیں خوش وہ دلیر ہیں
پڑھنے کا غم ہے ان کو نہ ہے ان کو فکر دوش
ہر وقت کھیلتے ہیں پڑھائی کا کس کو ہوش
آپس میں لڑ بھی لیتے ہیں جب آئے ان کو جوش
ہنستے ہیں امتحان کے دن یہ کتب فروش
ان کے لئے زمانہ میں کوئی بھی غم نہیں
چکنے گھڑے ہیں یہ انہیں کوئی الم نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.