آج پھر جینے کا اے دوست ارادہ کر تو
کیوں اجالے ہیں نگاہوں میں تری چبھنے لگے
کیوں اندھیروں میں مرے دوست تجھے کیف ملے
کیوں تری روح کسی نغمے سے شاداب نہ ہو
کیوں تبسم پہ کلی کے بھی ترا دل نہ کھلے
نام لیتے ہی وفا کا تو بپھر اٹھتا ہے
ذکر اخلاص کا کرتے ہی بھڑک جائے تو
کیوں ہر اک وعدے پہ ہوتا ہے گماں بول تجھے
کیوں ہے اقرار سے آتی تجھے انکار کی بو
بات چھڑتی ہے اگر نرگسی آنکھوں کی کبھی
سرد سی آہ نکل آتی ہے سینہ سے ترے
اٹھ کے چپ چاپ چلا جاتا ہے محفل سے تو
دوست ہوتے ہیں پریشان قرینے سے ترے
کیوں یہ دنیا تجھے بے سود نظر آتی ہے
کیوں کسی چیز کی چاہت ہے نہ حسرت ہے تجھے
کیوں طبیبوں کو نہیں پاس پھٹکنے دیتا
غمگساروں سے بتا کس لیے نفرت ہے تجھے
موسم گل تو کئی بار ہے آ آ کے گیا
ایک مدت سے ترے چہرے پہ رعنائی نہیں
گوشہ گوشہ ہے کھلا آج بھی گلشن کا مگر
تیرے دل کے کسی گوشہ میں بہار آئی نہیں
بے وفائی نے کسی کی ہے دل ایسا توڑا
تجھ کو دریا بھی سرابوں سا نظر آتا ہے
ہر حسیں چیز سے ناحق تجھے ڈر لگتا ہے
دودھ کا جیسے جلا چھاچھ سے گھبراتا ہے
دل کو بیزار نہ کر اک دو حوادث کے سبب
زیست میں اور حوادث بھی گزرنے ہیں ابھی
دل کا اجڑا ہے اگر باغ تو مایوس نہ ہو
پھول مرجھانے بھی ہیں اور بھی کھلنے ہیں ابھی
بے وفا کوئی جو نکلا تو خطا کیا تیری
بے سبب خود کو نہ اس درجہ سزا دے اب تو
یاد کر کے اسے حاصل تجھے کیا ہوگا بتا
جو تجھے بھول گیا اس کو بھلا دے اب تو
اٹھ نئی پود لگانے کا ہے موسم آیا
پھول اجڑے ہوئے گلشن میں کھلا دے تو نئے
کب سے بیتاب ہے دنیا ترے نغموں کے لیے
اٹھ کے سازوں کو سجا گیت سنا دے تو نئے
آج پھر جینے کا اے دوست ارادہ کر تو
پھر نہ روٹھے گا کبھی زیست سے وعدہ کر تو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.