پندرہ روز علالت کے، ایسے گزرے جن میں باہم رابطہ نہ تھا
پھیل گیا اک تنہا دن تب دوسرے تنہا دن سے ملا
دھیرے دھیرے اینٹ پہ اینٹ جمی
میرے چاروں طرف دیوار بنی
پندرہ روز کے بعد کہیں یہ زنداں ٹوٹا
واپس لوٹا اپنی دنیا میں
سب کچھ ویسے ہی پڑا ہے جیسے چھوڑ گیا تھا
میز اسی طرح ترچھی رکھی ہے
ریک سے ایک کتاب نکالی تھی یوں ہی کھلی پڑی ہے
دھوپ اترتی دھوپ مری الماری کے آدھے پٹ پر رکی ہوئی ہے
اب وہ یہیں سے واپس ہو جائے گی
جیسے اس کی حدیں ہمیشہ سے مقرر ہیں
جیسے میرے ہونے نہ ہونے کا کوئی فرق نہیں
کھڑکی سے پھر وہی ہوائیں لوٹ آئیں ہیں
میرے سینے میں جو سانس کی صورت تیر چکی ہیں
بیتے پندرہ دنوں میں شاید وہ اجداد کی تسکیں کا سامان بنی ہوں
وہ خوش ہوں میرے سینے کے بھتے سے ان کا تنفس چلتا ہے
مرے ذریعے وہ اس دنیا میں اب بھی جاری اور ساری ہیں
لیکن اب تو ان کا شجر دور دور تک پھیل گیا ہے
ان کے جاری ساری رہنے کا احساس مرے ہونے نہ ہونے کا پابند نہیں
میں جو نہیں تھا سب کچھ ویسے ہی رکا پڑا ہے
بیڈ سے ایک ادھورا خط اب بھی جھانک رہا ہے
یہ خط میں نے تم کو لکھا تھا
کمرے کے گوشے میں دبکا سناٹا
میرا ہمیشہ کا ہم راز وہی سناٹا لوٹ آیا ہے
سرگوشی میں مجھ سے کہتا ہے
تم اس خط سے عمر میں پندرہ روز بڑے ہو
اس دن وہ ساری باتیں کتنی سچی تھیں!
وہ سچائی اٹل ہے
وہیں کھڑی ہے
میری ساری نظموں کی مانند
جو میری بیتی سانسوں کا کتبہ ہیں
زندہ ہیں پائندہ ہیں
میرے ہونے نہ ہونے کی پابند نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.