آخری رات
مت بجھا دل ناداں
سوگوار شمعوں کو
اب بھی غم کے ماروں کی
آدھی رات باقی ہے
خواب کی تہوں میں اب
چھپ گئے ہیں جا جا کر
زندگی کے سوداگر
ہے جہان بے پایاں
ایک قریۂ ویراں
اور میری یہ دھرتی
کروٹیں بدلتی ہے
جیسے درد کے مارے
کوئی کچھ نہ کہہ پائے
چونک چونک اٹھتی ہے
راستے کی خاموشی
موت جیسے کرتی ہو
زندگی سے سرگوشی
میں نے اشک بوئے تھے
جن فسردہ آنکھوں میں
ان سے خون رستا ہے
ان سے آگ بہتی ہے
میرے سامنے آ کر
ناچ ناچ اٹھتی ہیں
میری اپنی تصویریں
کتنی بار جب میں نے
زندگی لٹائی ہے
اور کسی کی چاہت میں
زلزلے سے آئے ہیں
آسمان ٹوٹا ہے
جان پر بن آئی ہے
شل ہوئے ہیں یہ شانے
تھک گئی ہیں آشائیں
لیکن آج بھی ہمدم
یہ اداس دروازہ
شاہراہ کی جانب
جیسے تکتے رہتے ہیں
دیکھ ان دریچوں پر
کئی بوند پھر ٹپکی
نیند کے درختوں کو
کوئی پھر ہلاتا ہے
اور جیسے رہ رہ کر
میرے کان بجتے ہیں
موت کے قدم کی چاپ
میری ناتمام الفت
آسرا دلاتی ہے
آج جاگ کر کاٹو
ساعت فسردہ کو
آج کوئی آئے گا
آج کوئی آئے گا
- کتاب : تیری صدا کا انتظار (Pg. 128)
- Author : خلیل الرحمن اعظمی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.