آرزو بہاروں کی
اے آخر شب کے ماہ پارو
مجھے بھی تم اپنے ساتھ لے لو
کہ دشت تنہائی میں غموں کی
فصیل پر میں کھڑا ہوں تنہا
کھڑا ہوں اور تک رہا ہوں ان
بے کراں اندھیروں میں جانے کب سے
کہ آخر شب کوئی مسافر
بھٹک کے راہ طرب سے آئے
کچھ اس گلی کا پتہ بتائے
کہ جس میں ٹوٹے ہیں میری چشم امید
سے آرزؤں کے تارے
جنہیں اندھیروں نے ڈس لیا تھا
جو روشنی کے پیامبر تھے
بتائے مجھ کو کہ اب وہ چشم طرب
کہاں ہے کس حال میں ہے
کہ جس کی خاطر جلائے ہیں
حسرتوں کے کتنے چراغ ہم نے
مگر وہ ظلم و ستم کی آندھی
جو دست انساں سے چھین لیتی ہے
چند روزہ حیات کے دن
اور اس کے بدلے میں بخش دیتی ہے
بھوک و افلاس و پیاس کے دن
وہ بھوک اور پیاس جس کے شعلوں میں
ان گنت جسم پھنک رہے ہیں
یہ ننگے بھوکے بلکتے بچے
کہ جن کی آنکھوں سے رس رہا ہے
عروج انسانیت کا پانی
سنہرے سکوں کے ڈھیر
جن پر
وہ لوتھڑے گوشت کے جو بیٹھے ہیں
بن کے اجگر
انہیں اٹھاؤ
اٹھا کے کھیتوں میں دفن کر دو
کہ ان کی اک مشت خاک
انسانیت کی کھیتی میں کام آئے
کہ زندگی ان کی ایک ناسور ہے
زمانے کے جسم و جاں پر
سنہرے سکوں کے ڈھیر
بن جائیں بالیاں
جو کی گیہوں کی چاولوں کی
یہ بالیاں
پھر کسی کے کانوں میں جھلملائیں
یہ چاند بن کر
وطن کے ماتھے پہ جگمگائیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.