آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
آرزو راہبہ ہے عمر گزاری جس نے
انہی محروم ازل راہبوں معبد کے نگہبانوں میں
ان مہ و سال یک آہنگ کے ایوانوں میں
کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری
روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری
راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
لڑکھڑاتی ہوئی فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحر نو یہی قندیل بنے
آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر
خود میں کھوئے ہوئے سہمے ہوئے سرگوشی سے ڈرتے ہوئے
راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر
کس لیے راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں
راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند
بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں
جس میں اگتے نہیں دل سوزیٔ انساں کے گلاب
راہبہ شمع لیے پھرتی ہے
یہ سمجھتی ہے کہ اس سے در معبد پہ کبھی
گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی
سنگ ریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.