آسماں زرد تھا
اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا
ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں
اب ترا روپ بھی دھندلا سا چلا تھا دل میں
تو بھی اک یاد سی تھی جملہ حسیناؤں میں
تہہ بہ تہہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن
رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں
رقص شبنم کی پرستار نگاہوں کے لیے
دھوپ کے ابر تھے خورشید کی بوچھاریں تھیں
آسماں زرد تھا جیسے کوئی یرقاں کا مریض
جس کے تکیے کے لیے ریت کی دستاریں تھیں
دل بھرا رہتا تھا جلتے ہوئے چھالے کی طرح
روح کے واسطے دیواریں ہی دیواریں تھیں
کوئی آواز نہ آتی تھی بہ جز صوت مہیب
کوئی نغمہ نہ تھا چیلوں کے ترنم کے سوا
سارا انداز تھا پھیلے ہوئے دریاؤں کا
ریگ صحرا کے سمندر میں تلاطم کے سوا
خشک پتوں کا نمک ریت کے ذروں کی مٹھاس
ہونٹ سب ذائقے رکھتے تھے ترنم کے سوا
کب تک اس دل کی لگن راس نہ آتی آخر
مسکراتا ہوا گردوں پہ ہلال آ ہی گیا
اپنے دیوانوں کو سینے سے لگانے کے لیے
اک غزل پیکر و افسانہ جمال آ ہی گیا
اے فلک تو نے ہمیں خاک سے آخر کو چنا
اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا
- کتاب : kulliyat-e-mustafa zaidii(mauj mrii sadaf sadaf) (Pg. 30)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.