عیسیٰ اشک نے چمکائی ہے پلکوں کی صلیب
پیار نے درد کی انجیل کو دہرایا ہے
پھر کسی یاد کا جلتا ہوا پاگل جھونکا
میرے سوکھے ہوئے ہونٹوں کے قریب آیا ہے
آج پھر آنکھ کی بدنام گذر گاہوں پر
رک گیا ہے کوئی چلتے ہوئے جلوؤں کا سراب
آنکھ اب خواب کی جنبش بھی نہیں سہہ سکتی
اب کوئی وجہ تکلف نہ کوئی رسم حجاب
دل کہ اک کانچ کی چوڑی سے بھی نازک ٹھہرا
کس طرح اتنی بڑی چوٹ کو سہہ سکتا ہے
جو کبھی عرش محبت سے نہ نیچے اترا
کس طرح موت کے تہہ خانے میں رہ سکتا ہے
یہ اندھیرا یہ پگھلتا ہوا شب رنگ سکوت
میرے احساس کی ہر موج میں ڈھل جانے دے
آخری سانس کی تلوار بھی چل جانے دے
مجھ کو اس حرص کی بستی سے نکل جانے دے
وہی سنگم وہی تقدیر کا پہلا سنگم
تم جہاں مجھ سے ملے تھے میں وہیں جاؤں گا
یہ جدائی تو فقط سانس کا اک وقفہ ہے
میرے محبوب نہ گھبراؤ میں پھر آؤں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.