Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آواز کے سائے

قمر جہاں نصیر

آواز کے سائے

قمر جہاں نصیر

MORE BYقمر جہاں نصیر

    عجب پاگل سی لڑکی تھی

    عجب سی خواہشیں اس کی

    وہ ہفت افلاک کی دھن میں ہوا کے دوش پر رقصاں

    لگن میں فاش کرنے کی

    زمین و آسماں کے راز سر بستہ

    زمیں کے ساتھ ضد باندھے

    کہ

    گرد مہر عالم تاب کیوں یہ رقص پیہم

    مجھے اس کلیے کو توڑ کر

    زمین و آسماں سے آگے جانا ہے

    وہی پاگل سی لڑکی

    اچانک آن ٹکرائی تھی مجھ سے

    الف لیلیٰ کے صفحوں سے نکل کر

    کسی رومانوی افسانے کے کردار کی صورت

    کبھی لکھ بھیجتی تھی لفظ کچھ ایسے کہ میں حیران ہوتا تھا

    کبھی کہتی کہ

    میں جبریل ہوں اس کی حرا کا

    کبھی لکھ بھیجتی اے کوزہ گر میرے

    تمہارے رقص کرتے چاک کا معراج ہوں میں

    تمہارے فن کی ہوں تکمیل میں

    کبھی ہنستے ہوئے اک نام دیتی تھی

    مجھے ہم زاد کہتی تھی

    عجیب پاگل سی لڑکی تھی

    عجب سی خواہشوں کو لفظ دیتی تھی

    عجب فرمائشیں کرتی

    کبھی کہتی سنو ہم زاد میری بات

    بہت ہی منفرد ہو تم

    نہیں لگتے تم اس کرے کے باشندے

    کہ اس دنیا میں کوئی اجنبی ہو تم

    تمہیں کن کہنے والے نے فقط میرے لیے بھیجا

    عجب پاگل سی لڑکی تھی

    وہ میرے التفات‌ چشم پر نازاں

    کبھی کہتی تمہارا مجھ سے یوں ملنا

    مری خوش بختی کا ضامن

    اچانک

    گفتگو کے درمیاں یو ٹرن لیتی تھی

    مجھے حیران ہونے کی بھی وہ مہلت نہ دیتی تھی

    وہ کہہ اٹھتی

    سنو اک بات کہنی ہے

    اجازت ہو تمہاری گر

    تو بس اک تین لفظی کلمہ کہنا ہے مجھے تم سے

    سنو الفاظ کی دنیا سے کیسی چشم پوشی یہ

    میں خود میں مسکراتا اور پھر موضوع بدل دیتا

    لبوں سے اس کے اک جھرنے کی قلقل جاری ہوتی تھی

    میں اس جملے سے جتنا ہی گریزاں

    وہ اتنی ہی کمر بستہ

    وہ ہر دن مسکراتی آنکھیں اپنی

    تصور کی نگاہوں سے

    مری آنکھوں میں ڈالے

    شرارت سے بھرے جملے یوں میری نذر کرتی تھی

    اجازت ہے مرے ہمدم

    کہو اب کہہ بھی دوں

    یہ کرب جان لیوا کب تلک

    رہائی کب ملے گی اس امید و نا امیدی سے

    میں کہہ اٹھتا اگر اثبات میں رد عمل ظاہر کیا میں نے

    تو پھر تم چار حرفی لفظ کی پاگل سی خواہش پال بیٹھو گی

    عجب پاگل سی لڑکی تھی

    مگر

    جب آج اس لمحے

    اجازت مانگتے الفاظ اس کے

    ردائے خامشی کو اوڑھ کر چپ چاپ بیٹھے ہیں

    تو دل میرا

    عجب سرگوشیاں کرنے کو پاگل

    سنو ہم زاد میری

    وہی سہ لفظی جملہ

    میں تم سے آج کہتا ہوں

    مگر آواز کے ان دیکھے سائے

    کسی عفریت کی صورت

    مجھے ہی جکڑے رہتے ہیں

    یہ پچھتاوے کا برزخ اور میں ہوں

    کہ اب

    عناصر منتشر اور گم شدہ نبضیں

    فضا میں بازگشت اک آرزو کی گونجتی ہر پل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے