آوازیں
افلاک کے تاروں میں جلتی بجھتی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
کہسار کے پھولوں میں بکھری بہکی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
ہے موسم گل کی آمد سے اشکال چمن میں تبدیلی
یا مرغ سحر کی گلشن میں بدلی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
زردار کی ہر آواز میں ہے بپھری ہوئی صورت کا نقشہ
مزدور نحیف و بے چارے سہمی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
آواز جسے ہم کہتے ہیں تحریک ہے یہ کچھ شکلوں کی
ہم جن کو سمجھتے ہیں شکلیں ٹھہری ہوئی کچھ آوازیں ہیں
وہ گیت ہمیں جو یاد رہے دیکھی ہوئی صورت ہے کوئی
مانوس ہیں جو شکلیں ہم سے جانی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
الحاد کے کچھ مے خواروں نے پی لی ہے زیادہ ہی شاید
اطراف دیار مغرب سے بہکی ہوئی کچھ آوازیں ہیں
اے زیبؔ کھویا ہی اپنے ہیں ان کی لغت سے ناواقف
ہر بحر سے موجوں کی صورت اٹھتی ہوئی کچھ آوازیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.