اب دھوپ چڑھی دیواروں پر
اب وقت سفر آ پہنچا ہے آ مل بیٹھیں دو چار گھڑی
جب پہلے پہل تم آئے تھے آغاز سحر کا میلہ تھا
کچھ کرنیں مدھم مدھم تھیں کچھ اجلا اجلا دھندلکا تھا
کچھ ایسی امنگیں تھیں دل میں
جو سرکش بھی معصوم بھی تھیں
کچھ ہستی بولتی نظریں تھیں
جو شوخ بھی بے مفہوم بھی تھیں
سورج کی ابھرتی کرنیں بھی یوں کھیل رہی تھیں پہاڑوں پر
جس طرح ہوا انگاروں پر
نظریں تھیں مری کہساروں پر
پھر دھوپ چڑھی موسم بدلا
حالات کی گردش تیز ہوئی
باہر کی فضا ہیجانی تھی
اندر کے تلاطم خیز ہوئی
کچھ ایسی بلا کی شدت سے ٹکراؤ ہوا طوفانوں کا
جو قدریں تھیں پامال ہوئیں
جو خواب تھے چکنا چور ہوئے
چند ایک لمحے ہاں لیکن
فردا کے جو خد و خال بنے
جو حال سے استقبال بنے
کچھ یادیں جی کا وبال ہوئیں
کچھ زخم کہ جو ناسور بنے
کچھ اشک جو غالب آ کے رہے طوفان کے سرکش دھاروں پر
طوفاں کے تھپیڑوں میں بھی کبھی
جب مڑ کے دیکھا کناروں پر
پاؤں تھے انا کی رکابوں میں نظریں تھیں مری کہساروں پر
اب دن کا میلہ ختم ہوا
اب دھوپ چڑھی دیواروں پر
اب اندھیاروں کا میلہ ہے غاروں شہروں کہساروں پر
اب راکھ چڑھی انگاروں پر
اب وقت سفر آ پہنچا ہے آ مل بیٹھیں دو چار گھڑی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.