ابد گزیدہ
خزاں رسیدہ
بدن دریدہ
کہاں چلا ہے تو سر بریدہ
اجل کی بارات جا رہی ہے
یہ کون ڈمرو بجا رہا ہے
فنا کی دیوی نئی وباؤں کی تازہ فصلیں اگا رہی ہے
عجب گھڑی ہے
عدم کی بستی میں بھیرویں گائی جا رہی ہے
مگر تحیر کے آسمانوں میں اک ستارہ
طلسم ہستی کے خشک ہوتے سمندروں سے
بس ایک قطرہ
ابد کی گہری سیاہیوں میں
وہ ایک بے جسم
روشنی کا حقیر ذرہ
وہ ایک ذرہ کہ جس کے دم سے دمک اٹھیں گی
نجانے کتنی ہی کہکشائیں
ورید جاں سے ٹپکنے والی امید کا بے مثال جوہر
عجب کرشمے دکھا رہا ہے
کئی فرشتے تباہیوں کے
اجل کے کتنے ہی دیوتا
اپنی حیرت کی چلمنوں سے نکل کے باہر
یہ دم بخود اس سے پوچھتے ہیں
تو اپنے جوتوں سمیت معبد میں کیسے پہنچا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.