ابھی برف باری تھمی ہے
بہت دور کیوں بھیڑ سے میں کھڑا ہوں
مجھے لوگ کیوں دیر سے تک رہے ہیں
مجھے کیا
دھنک رنگ ہولی کا اڑتا گلال
مچلتا ہوا روپ رنگ
مجھے وقت نے جیسے بچپن سے پہلے جوانی عطا کی
جوانی سے پہلے ہی دل کا لہو منجمد کر دیا
وقت نے توڑ ڈالے کھلونے سبھی لذت شوق کے
میرے رخسار کی جھریاں
آنکھ کی کوڑیاں
ذہن کی کھڑکیاں پاؤں کی بیڑیاں
وقت کی برف باری کا انعام ہیں
بہت دور کیوں بھیڑ سے میں کھڑا ہوں
مجھے لوگ کیوں دیر سے تک رہے ہیں
بھیڑ کیا کون سے لوگ ہیں
مہربانوں کی رشتوں کی ناطوں کی بھیڑ
جنہیں مجھ سے بڑھ کر تمنا ہے تنخواہ کے چیک کی
بھیڑ کیا کون سے لوگ ہیں
مری غم-نوازی سے بڑھ کر جنہیں صرف کافی کا پیالہ بہت ہے
بھیڑ کیا کون سب ہیں
ان حسیناؤں کی جن کے آنچل کبھی خواب میں بھی نہ بھیگے
میری چاہ میں
مجھے بھیڑ سے واسطہ کیا
مجھے کیا دھنک رنگ ہولی کا اڑتا گلال
مجھے اپنے مرقد پہ ہنسنے کا موقع ملا
ابھی برف باری تھمی ہے
ذرا وقت کی چال مدھم ہوئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.