ابھی کچھ اور ٹھہر
مجھے یہ شام بھی تجھ سی حسین لگتی ہے
گزرتی شام کے صندل سے آسمان پہ دیکھ
پلٹ کے جانے سے پہلے سنہرے سورج نے
گھنے درخت پہ ماتھا ٹکا دیا اپنا
مرے بھی کاندھے پہ تو سر ٹکا کے بیٹھ ذرا
کچھ اور دیر مرے پاس آ کے بیٹھ ذرا
کچھ اور دیر کہ سرگوشیوں کی آوازیں
دھڑکتے دل کی سدا میں سمائے جاتی ہیں
مرے لبوں پہ درخشاں ہے تیرے نام کی لو
ترے لبوں سے لرزتی سدا ڈھلکتی ہے
سماعتوں میں ترے لفظ گھل رہے ہیں ٹھہر
سکوت زیست کے سب داغ دھل رہے ہیں ٹھہر
ذرا ٹھہر تری آنکھوں میں صاف لکھا ہے
نشاط وصل پہ بھاری ہے درد رخصت کا
غروب شام کا منظر ہے اور تری آنکھیں
ذرا خمار میں بہکی ہیں کچھ تھکان سے چور
تری نظر ہے کہ گویا نگاہ ساقی ہے
ابھی نہ جا مجھے مدہوش ہونا باقی ہے
ذرا سی دیر میں یہ شام لوٹ جائے گی
تجھے بھی گھر کی پریشانیاں بلا لیں گی
مجھے بھی شہر کی گلیوں کی خاک چھاننی ہے
پر اس سے پہلے ذرا دیر رک تجھے چھو لوں
میں اپنی نظروں سے ہاتھوں کا کام لوں رک جا
میں تیرے عکس کو آنکھوں میں تھام لوں رک جا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.