ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں
ابھی وہ ایک دن کا بھی نہیں
بھٹی سے مٹی کی نسل آگ کا نام پوچھتی اور
گیلی چھاؤں تلے سو نہ نہ جاتی تو قیدی قیدی نہ جنتے کلیاں کھلتیں یا موسم رہا ہوتے یا کچھ اور
ہوتا مگر یوں ہوا کہ اس کے میرے درمیاں اک پل ٹوٹ گیا
اس کے میرے درمیاں ایک تتلی بھڑکتی پھرتی ہے
اس کے میرے درمیاں اک راہ مسافر ہے
اس کے میرے درمیاں بہت سے لفظ ٹوٹے ہوئے پیالوں کے کنڈوں کی طرح
ایک دوسرے میں اٹکے ہوئے ہیں
سو میں نے آج کا دن بھی ضائع ہونے کے لئے دیوار پر ڈال دیا
چندھیائی ہوئی چڑیا در پر کوا کس کے مزار کی مٹی لیے
میرے آنگن میں دھوپ دھونے آ نکلی ہے
اڑنے میں کچھ دیر لگے گی
پر گیلے ہیں چھتیں اونچی ہیں درمیاں میں دھواں
دھوپ سمیٹ اور بکھیر رہا ہے
آؤ مجھے رہا کرو میرے پروں سے گیلی مٹی چمٹی ہوئی ہے
مجھے اڑنے کا اذن دو کہ میں نے سو رہنے کا گناہ کیا
سورج کمانے اب چھاؤں نہ ہونے دینا
میں نے مرا ہوا جھوٹ جنا مجھے اور سونے نہ دینا کہ ابھی مجھے سچ بولنا ہے
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 238)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.