ادھوری داستاں
نژاد برگ و گل
سحر کی سمت جا رہی ہے
خواب کار ظلمتوں کے دشت سے
حروف
زائچے
پرانے ادھ جلے
کھنڈر عمارتیں مکان
ان کے بھوت بھی ہیں ان کے ہم سفر
ہجوم کارواں سحر زدہ ہے
زرد دائروں میں عکس ریز پتلیاں
فضا کو نوچتی ہیں
مانگتی ہیں خون دل کا
ایک ایک راہگیر سے خراج
میں ان کے ساتھ ہوں
یا اپنا راہزن
دعا کی خاک بال و پر سے
میں جھٹک چکا ہوں
میری رات
میری تیرگی
مجھے اتارنا ہے تجھ کو خون دل کی
موج بے کراں کے سیل گرم میں
مجھے پکارنا ہے اس فسردہ دل
اداس اجنبی کو
مجھ سے جانے کب جو دفعتاً بچھڑ گیا
یہ لوگ میرے ہم سفر
سحر کے قرب سے
حیات جاوداں کی محفلیں سجائیں گے
مری ادھوری داستاں سنائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.