ادھوری نظم ہوتی ہے
کہاں تم جان پاؤ گے
کہ اس تپتے ہوئے صحرا میں ننگے پاؤں چلنے کی
اذیت کس کو کہتے ہیں
کئی دن پیاس کی چھاگل لیے
جب ریت ہونا ہو
تو ہونٹوں کی دہکتی آرزو کو ماپنے کا کوئی پیمانہ
جہاں میں بن نہیں پایا
تو کیا وہ درد سن پاؤ گے
جس کو
آج تک کوئی
یہاں چیخا نہیں کھل کر
کہاں وہ کرب جانو گے
جواں سالی میں اپنا
جب کوئی رخصت کیا جائے
تو دل پر کیا گزرتی ہے
ہماری زندگی قبروں پہ جا کر بیٹھ جاتی ہے
کہا یہ عام جاتا ہے
کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے
لیکن
کچھ کچوکے وقت سے زائل نہیں ہوتے
ہمیشہ تازہ رہتے ہیں
مکمل ہو نہیں پاتی ہماری پارہ پارہ ذات
ادھوری نظم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.