ادھوری
نخل نمو کی شاخ پہ جس دم
نم کی آنچ کی سرشاری میں
پنکھ اپنے پھیلا کر غنچہ
پوری تاب سے کھل اٹھتا ہے
رنگ اور خوشبو کی بانی میں
ذات و حیات کے کتنے نکتے
پورے وجود سے کہہ دیتا ہے
یہ نہیں جانتا کیسے کیسے
رت کے بھید ہوا کے تیور
پھر بھی ان کہے رہ جاتے ہیں
دیکھتے دیکھتے رنگ اور خوشبو
آپ ہی مدھم ہو جاتے ہیں
پوری بات کہی نہیں جاتی
بات ادھوری رہ جاتی ہے
رستے ختم کبھی نہیں ہوتے
رستوں کے آگے رستے ہیں
آرزوؤں اندیشوں جیسے
رستوں میں رستے الجھے ہیں
ان رستوں کے راہی سارے
تھک تھک راہ میں رہ جاتے ہیں
رستے ختم کبھی نہیں ہوتے
باتوں کے پیچھے باتیں ہیں
چہرے صاف نظر نہیں آتے
چہرے چلمن بن جاتے ہیں
چہروں کے پیچھے چہرے ہیں
چہرے مدھم ہو جاتے ہیں
منظر مبہم ہو جاتے ہیں
دید نصیب کسے ہوتی ہے
دل میں دوری رہ جاتی ہے
پوری بات کہے کیا کوئی
پوری بات کہی ہے کس نے
بات ادھوری رہ جاتی ہے
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 420)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.