افیمی کا قصہ
یہ قصہ ہے افیمی کا جو اک گاؤں میں رہتا تھا
نشہ کرنے کی عادت تھی بہت ہی بھولا بھالا تھا
لڑکپن گاؤں میں گزرا جوانی بھی وہیں گزری
سیاحت کی تمنا تھی تو اس نے کر لی تیاری
سویرے ایک دن گھر سے روانہ ہو گیا پیدل
تھا کچا راستہ اور ہر طرف پھیلا ہوا جنگل
سفر مغرب کی جانب تھا وہ چلتا ہی رہا سیدھا
ہوئی جب دوپہر تو ایک برگد کا شجر دیکھا
اسی برگد کے سائے میں افیمی سو گیا تھک کر
مزے سے نیند لی ٹھنڈی ہوا میں اس نے گھنٹہ بھر
ہوا بیدار تو مشرق کی جانب راہ لی اپنی
خبر اس کو نہیں تھی سمت اس کی ہو گئی الٹی
وہ چلتا ہی رہا اپنی ترنگ میں اور کوشش تھی
پہنچ جاؤں کسی بستی میں رات آنے سے پہلے ہی
غروب ہونے لگا سورج تو اپنے گاؤں میں پہنچا
مگر سمجھا افیمی نے میں اگلے گاؤں میں پہنچا
جب اس نے گاؤں کو دیکھا بہت یکسانیت پائی
کہا یہ گاؤں لگتا ہے مرے دیہات کا بھائی
دکانیں اور گلی کوچے مجھے ویسے ہی لگتے ہیں
وہی شکل و شباہت کے یہاں انسان بستے ہیں
میں جس بستی میں رہتا ہوں اسی کا سارا نقشہ ہے
مجھے پورا یقیں ہے یہ مرے گاؤں کا چربہ ہے
ہے میرا گھر بھی ایسا ہی جو میرے سامنے گھر ہے
یہ گاؤں تو مرے دیہات کا جڑواں برادر ہے
قدم گھر میں رکھا تو ایک محترمہ نظر آئی
افیمی سمجھا وہ صورت مری بیگم کی جیسی ہے
جو عورت اس مکاں میں ہے مری بیگم کی کاپی ہے
ہوئی جب بات عورت سے تو یہ عقدہ کھلا اس پر
یہی ہے میرا گاؤں میری بیگم اور میرا گھر
تعجب تھا افیمی کو سفر میں پورا دن گزرا
میں چلتا ہی رہا سیدھا تو کیسے اس جگہ پہنچا
افیمی نے جب اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑایا
سمجھ دانی سے فوراً حل معمے کا نکل آیا
زمیں کا پورا چکر میں نے اک دن میں لگایا ہے
عظیم الشان کرتب ما بدولت نے دکھایا ہے
زمیں ہے گول اس دعوے کو ثابت کر دیا میں نے
ثبوت اپنے سفر سے آج حاصل کر لیا میں نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.