یہ عروج دولت قیصری یہ شکوہ تاج سکندری
کہ یہاں تو خون غریب سے ہے تپش میں نبض تونگری
وہی خواجگی وہی خسروی وہی رنگ و نسل کی برتری
یہی ہے تمدن مغربی کوئی مجھ سے سن لے کھری کھری
جو ہے طرز بادہ کشاں یہی جو ہے میکدے کا سماں یہی
خم و شیشہ میں مئے لالہ گوں یوں ہی سڑ رہے گی دھری دھری
یہ زمانہ کیسا بدل گیا نہ وہ ولولے نہ وہ حوصلے
کسی وقت تھے جو صنم شکن وہ ہیں آج وقف صنم گری
مرے دل پہ برق سی گر پڑی یہ کہا جو مرغ اسیر نے
مرے آشیانے کی شاخ بھی کبھی تھی چمن میں ہری بھری
وہی آہ اصل میں آہ ہے وہی نالہ اصل میں نالہ ہے
کہ ادھر جو دل سے نکل پڑے تو ادھر فلک میں ہو تھرتھری
یہ ستم ظریفیٔ عہد نو بھی ہے نجمیؔ کتنی عجیب سی
کہ جو گمرہی میں ہے مبتلا ہے اسی کو دعویٰ رہبری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.