افکار پریشاں
دنیائے رنگ و بو سے محبت نہیں رہی
اب گل رخان دہر کی چاہت نہیں رہی
یا رب یہ کس مقام پر اب آ گیا ہوں میں
بیزار دل کو ان سے بھی الفت نہیں رہی
بیمار غم کی چارہ گری اب نہ کیجیے
اس کو کسی علاج کی حاجت نہیں رہی
آزردہ مجھ کو دیکھ کے کہتے ہیں سب رفیق
کیا ہو گیا تمہیں کہ بشاشت نہیں رہی
جو کچھ کہا کسی نے وہ چپکے سے سن لیا
دنیا سے اب الجھنے کی ہمت نہیں رہی
دشواریٔ حیات سے ہے قافیہ ہی تنگ
ایسے میں شعر کہنے کی فرصت نہیں رہی
تقدیر نے بھی اپنی نظر مجھ سے پھیر لی
جب سے تمہاری چشم عنایت نہیں رہی
اس عالم وجود پہ تنقید کیا کروں
اب مجھ کو عیب جوئی کی عادت نہیں رہی
جلوہ ہر ایک شے میں ہے پروردگار کا
دل کو کسی بھی چیز سے نفرت نہیں رہی
تیری تجلیوں سے ہوا دل بھی جام جم
اس آئنے پہ گرد کدورت نہیں رہی
یا دور بھاگتا تھا میں اپنوں کے نام سے
یا دشمنوں سے بھی مجھے وحشت نہیں رہی
زر ہے کسوٹی عظمت انساں کی آج کل
علم و ہنر کی اب کوئی وقعت نہیں رہی
تہذیب نو نے دیکھیے کیا گل کھلائے ہیں
مفقود ہے خلوص مروت نہیں رہی
گو عورتوں میں جذبۂ ایثار ختم ہے
مردوں میں بھی حمیت و غیرت نہیں رہی
بازار گرم رہتا ہے مکر و فریب کا
صدق و صفا کی اب کوئی قیمت نہیں رہی
ہے آدمی کی ذات سے لرزاں خود آدمی
اہل جہاں کے دل میں اخوت نہیں رہی
لاہور کیا چھٹا کہ زمانہ بدل گیا
ارباب ذوق و شوق کی صحبت نہیں رہی
کیا بات ہے کہ اب ترے شعروں میں اے بہارؔ
وہ سوز وہ تڑپ وہ حرارت نہیں رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.