اگر مجھے زباں ملے
تو دل کی داستاں کہوں
خود اپنے چارہ گر سے حال سعی رائیگاں کہوں
کہوں کہ کیوں فسردگی ہے خیمہ زن بہار میں
دھنک کے رنگ کیوں نہیں ہیں عکس شاخسار میں
وہ ابر بن کے تیرتی ہیں کیوں فلک کے نیل میں
گئے دنوں کی کشتیاں جو ہیں نظر کی جھیل میں
الم نصیب دوستوں کو کیا ہوا
وہ سبز موسموں کے خواب کیا ہوئے
وہ سرخ تتلیاں کہاں گئیں
میں سب کہوں
میں سچ کہوں
میں ساری داستاں کہوں اگر مجھے زباں ملے
اگر مجھے زباں ملے
بتاؤں سارے درد جن کو پیرہن ملا نہ حرف و صوت کا
سناؤں سب کہانیاں
وہ شام شام رنگتوں کی ان کہی کہانیاں
بیاں کروں وہ قربتیں جو دل ہی دل میں رہ گئیں
وہ دھوپ دھوپ چاہتیں
جو لفظ بھی نہ بن سکیں
جو اشک بن کے بہہ گئیں
اگر مجھے زباں ملے
اگر مجھے زباں ملے
تو ارتقا کی سب حدوں کو توڑ دوں
مسیح و کرشن سرمد و حسین کے تمام راز کھول دوں
ازل ابد کو جوڑ دوں
کہوں ازل ازل نہ تھا
کہوں ابد ابد نہیں
کہ اس کی ابتدا نہ تھی
کہ اس کی انتہا نہیں
یہ روز و شب کا سلسلہ تو کوئی سلسلہ نہیں
یہ پردۂ خیال ہے
مگر یہ سلسلہ بھی میرے نطق و لب کے بس میں ہو
یہ میری دسترس میں ہو
اگر مجھے زباں ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.