احمدآباد
آگ کا ذائقہ ہر زباں پر سلگتا ہوا زخم تھا
رات کا آہنی در سمندر کی جانب کھلا
آگ ہی آگ تھی
قطرۂ آب پر کار سا خواب تھا
رات کا آہنی در جہنم کی جانب کھلا
راستوں نے کہا کیوں ہجوم فراواں کا انجام عبرت ہوا
کون عبرت کے احساس کو مانتا
موت کو زندگی زندگی کو جہنم فسانہ تمسخر کا حیرت ہوا
ہم سفر تھے وہ ایک دوسرے کے لیے
قرب ان کا مگر آتش خوف تھا
موج سے موج لڑتی ہوئی
موج سے موج ندی کے آلام میں جیسے ڈھلتی ہوئی
کھڑکیاں رہ گزر پر مقدر کی مانند کھلتی رہیں
جو تماشائی ان کے اندھیروں سے ابھرا وہ جلتا گیا
وہ تو ننھا تھا معصوم تھا
اس کو سورج کا یا چاند کا عکس سب نے کہا
وہ بھی جلنے لگا وہ بھی بہتے لہو میں پگھلنے لگا
وہ تو ننھا تھا معصوم تھا
وہ مسیحا تھا وہ آخری نور تھا اس کی تقدیر میں
مرگ بیکار کیوں آج لکھی گئی
- کتاب : Lambi Barish (Pg. 86)
- Author : Balraj Komal
- مطبع : Sahitya Akademi, New Delhi (2002)
- اشاعت : 2002
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.