عہد ماضی
یاد ہے آغاز الفت کا زمانہ یاد ہے
ڈال کر بانہوں میں بانہیں مسکرانا یاد ہے
خم بہ خم زلفوں کا وہ چہرے پہ میرے لوٹنا
بھینی بھینی نکہتوں میں ڈوب جانا یاد ہے
سرخیوں سے وہ جھلک اٹھنا رخ ضو ریز سے
لیتے لیتے نام میرا جھینپ جانا یاد ہے
آگے بڑھ بڑھ کر پلٹنا اور پھر رکنا مرا
اس طرح دل کا مچلنا تلملانا یاد ہے
وہ مری بیتابیٔ دل سے تری بے تابیاں
وہ مرے شکوؤں پہ تیرا سر جھکانا یاد ہے
وہ مری پژمردنی سے تیرا ہو جانا اداس
وہ مجھے بھولی اداؤں سے ہنسانا یاد ہے
گر کبھی خلوت میں چھیڑا قصۂ شام فراق
مسکرانا مسکرا کر ٹال جانا یاد ہے
بے جھجک ملتے تھے مجھ سے پاس آتے تھے مرے
وہ گھڑی وہ وقت وہ دل کش زمانہ یاد ہے
سوچ کر انجام الفت کچھ جھجکنا خود بخود
دم بہ دم گھبرا کے مجھ کو آزمانا یاد ہے
وہ مرا جذبات سے گھبرا کے تجھ سے روٹھنا
آب دیدہ ہو کے وہ تیرا منانا یاد ہے
یاد جس کی خون کے آنسو رلائے گی حبیبؔ
وہ حکایت یاد ہے اور وہ فسانہ یاد ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.