دور مہتاب کے سائے میں ضیا پاش رہے
رخ پر نور پہ آویزاں چمکتے تارے
چاندنی رات میں ندی کے کنارے کاکل
میرے سینے پہ لرزتے ہوئے شب گوں دھارے
مجھے آغوش حلاوت میں اماں ملتی تھی
ہر مدھر شام کو مجبوری ایام سے دور
اپنے مجبور دھڑکتے ہوئے دل کی مانند
غم ہستی سے بہت دور ہمہ کیف و سرور
آج اس راہب پر نور کی تصویر بھی ہے
اپنے نوخیز تصور کی ضیا باری میں
ہاتھ میں دانۂ صد رنگ کی مالا لے کر
اپنے عرفان و تصوف کی پرستاری میں
نت نئے ذوق کی تکمیل میں گم رہتا تھا
محو تھا برسوں سے وہ روح کی بیداری میں
زہد و تقویٰ کے فسوں ساز پرستاروں نے
اور اخلاق و مروت کے ریاکاروں نے
اپنے ہاتھوں سے کہیں پھوڑ دیا پھونک دیا
نازنیں حسن زر و سیم کے انباروں نے
لیکن اس راہب پر نور کی عظمت کے طفیل
اک حسیں عہد محبت کے طلب گاروں نے
اپنی معصوم تمناؤں کے معنی سیکھے
سرمدی عشق کے ناکام پرستاروں نے
لاکھوں افسانے سر راہ ہوا کرتے ہیں
لذت شورش جذبات سے بہکائے ہوئے
میں نے ہر گام پہ ٹھکرا دئے کتنے ہی طلسم
نکہت و رنگ کے افسون میں الجھائے ہوئے
بک گئی دامن زرکار میں کس وعدے پر
بندھ گیا حسن ہوس کار کی زنجیروں میں
اس کے آبا کے تمدن پہ نچھاور ہو کر
رہ گیا عشق حسیں خواب کی تعبیروں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.