طرب فروز نظاروں سے دور کوسوں دور
جہاں نہ قہقہہ کوئی نہ کوئی سرگوشی
فقط سکوت کا اک سلسلہ چہار طرف
فضا کے ہونٹوں پہ ہے ثبت مہر خاموشی
زبان ساز ہے گنگ اور نغمگی چپ ہے
فضائے شہر خموشاں میں زندگی چپ ہے
ازل سے تا بہ ابد سلسلہ یہی ہوگا
گلاب خاک سے اگ کر ملے گا مٹی میں
گلاب سرخ ہو یا کاسنی یا عنابی
مرور وقت سے مل کے رہے گا مٹی میں
یہی ہے رمز مشیت یہی حیات کا راز
یہی فنا کی حقیقت یہی ثبات کا راز
ہوائے تند کے ہاتھوں سے جبر کی مقراض
چراغ گور غریباں کی لو کترتی ہے
مری نگاہ اسی ملگجے اجالے میں
پہنچ کے مرقد تازہ پہ جب ٹھہرتی ہے
سوال دل نے کیا مرقد فرازؔ یہ ہے
نگہ نے دل سے کہا مرقد فرازؔ یہ ہے
وہ مرد خلوت و جلوت وہ مرد لوح و قلم
وہ مرد نیک عمل آہ مرد نیک بیاں
میں اپنے آپ کو بہلاؤں لاکھ یہ کہہ کے
فن فرازؔ ہے زندہ مگر فرازؔ کہاں
مری مژہ پہ لرزتے ہوئے جو تارے ہیں
فرازؔ آپ کے مرقد کی نذر سارے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.