عمروں کی مسافت سے
تھک ہار گئے آخر
سب عہد اذیت کے
بے کار گئے آخر
اغیار کی بانہوں میں
دل دار گئے آخر
رو کر تری قسمت کو
غم خوار گئے آخر
یوں زندگی گزرے گی
تا چند وفا کیشا
وہ وادئ الفت تھی
یا کوہ الم جو تھا
سب مد مقابل تھے
خسرو تھا کہ جم جو تھا
ہر راہ میں ٹپکا ہے
خوں نابہ بہم جو تھا
رستوں میں لٹایا ہے
وہ بیش کہ کم جو تھا
نے رنج شکست دل
نے جان کا اندیشہ
۔
کچھ اہل ریا بھی تو
ہم راہ ہمارے تھے
رہرو تھے کہ رہزن تھے
جو روپ بھی دھارے تھے کچھ سہل طلب بھی تھے
وہ بھی ہمیں پیارے تھے
اپنے تھے کہ بیگانے
ہم خوش تھے کہ سارے تھے
سو زخم تھے نس نس میں
گھائل تھے رگ و ریشہ
جو جسم کا ایندھن تھا
گلنار کیا ہم نے
وہ زہر کہ امرت تھا
جی بھر کے پیا ہم نے
سو زخم ابھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے
کیا کیا نہ محبت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے
لو کوچ کیا گھر سے
لو جوگ لیا ہم نے
جو کچھ تھا دیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے
رکنا نہیں درویشا
یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ
آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ
صد شکر سلامت ہے
پندار فقیرانہ
اس شہر خموشی میں
پھر نعرۂ مستانہ
اے ہمت مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ
اے عشق جنوں پیشہ
اے عشق جنوں پیشہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.