اے رخ یار ادھر دیکھ ذرا
ہم کہ واماندگی شوق کا لمحہ لے کر
آ گئے ہیں ترے پیکر کے اجالوں کے قریب
کتنی صدیوں کی مسافت لے کر
ایک درماندہ تہی دست مسافر کی طرح
آ کے ٹھہرے ہیں ترے پیار کے برگد نیچے
ہم کہ مسحور طلسمات کدے ہیں تیرے
تیری آنکھوں تیرے ہونٹوں تیری زلفوں کے اسیر
تیری تمنا کے فقیر
منتظر ہیں کہ ترے جسم کا پرتو ابھرے
اور روشن ہوں تخیل کی وہ راہیں جن پر
کب سے پھیلی ہوئی گمنام سی تاریکی ہے
یوں سمٹ جائے مرے بخت پہ اتری ہوئی رات
نور چھن کر ترے پیکر کی تنک تابی سے
میری بے نور سی دنیا کو منور کر دے
میرے خوابوں کو حقیقت کر دے
اے رخ یار ادھر دیکھ ذرا
میرے دل دار ادھر دیکھ ذرا
جس کا اک عمر تمنائی رہا
اپنے گل رنگ سے جلووں کے طفیل
مجھ کو وہ کیف وہ رعنائی دے
ایک بے نام سے رشتے کو پذیرائی دے
اب تو اک لمس مسیحائی دے
ہم کو اے جان جہاں اتنی اجازت دے دے
جس گھڑی شام ڈھلے
تیری گیسو کی طرح شب کی حسیں زلف کھلے
تیرے آنچل کا کنارہ لے کر
ایک بے نام سہارا لے کر
اپنی بیتاب تمناؤں کی گرہیں کھولیں
تیرے زانو پہ یہ سر رکھ کے
دو آنسو رو لیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.