اے عروس بمبئی
اے عروس بمبئی صد حیف پیروں کا شکار
قافلے پیروں کے بیٹھے ہیں قطار اندر قطار
ہر گلی کی موڑ پر اک پیر ہے بیٹھا ہوا
پوچھتا ہے جس سے ہر اک زندگی کا راستہ
مسجدوں میں بت کدوں میں اور مے خانوں میں پیر
کوہ میں گلزار میں بستی میں ویرانوں میں پیر
جس طرف نظریں اٹھیں پیروں کا اک سیلاب ہے
سیکڑوں پیروں کے اندر آدمی نایاب ہے
بمبئی میں غم گسار زندگی ملتا نہیں
پیر تو ملتے ہیں لیکن آدمی ملتا نہیں
پیر وہ جو ریس کے گھوڑوں پہ رکھتے ہیں نظر
وحی نازل ہوتی ہے سٹے کی جن کے قلب پر
احمقوں کو اور بھی الو بنانے کے لیے
آئے ہیں دنیا میں جو سٹا بتانے کے لیے
آپ کی توہین ہے گر کچھ بھی محنت کیجیے
ایک بیڑی دیجیے سٹے کا نمبر لیجیے
پار ہے بیڑا جو کر لے کوئی پیروں پر یقیں
نوکری اولاد پیسے کا کوئی داندہ نہیں
ہوشیار ان رہزنوں سے اے عروس بمبئی
تیرے رخساروں کی کم ہونے لگی ہے روشنی
تیری نسلوں میں جواں پیروں کی باتیں جائیں گی
عقل کے ہوتے ہوئے بھی رنگ اپنا لائیں گی
زندگی کا راستہ اس طرح مل سکتا نہیں
غنچۂ امید ان پیروں سے کھل سکتا نہیں
چھوڑ دے للہ اب یہ پیر بازی چھوڑ دے
بت شکن فطرت ہے تیری ان بتوں کو توڑ دے
حیف تجھ کو زندگی کا راستہ ملتا نہیں
پیر ملتے ہیں تجھے لیکن خدا ملتا نہیں
- Naye Tarane
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.