اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
اس قدر تیز نہ ہو موج سبک خیز کی رو
کہیں اشجار کے خیموں کی طنابیں کٹ جائیں
زرد پتے ہیں ابھی گلشن ہستی کا سنگھار
کہہ رہی ہے یہ ابھی عہد گذشتہ کی بہار
رنگ رفتہ ہوں مگر آج بھی تصویر میں ہوں
مرتسم ہیں مری شاخوں پہ مری یاد کے چاند
میں ہنوز اپنے خیالات کی زنجیر میں ہوں
ابھی پتوں پہ چمک اٹھتا ہے رنگوں کا غبار
ابھی شاخوں میں لہک جاتی ہے بلبل کی پکار
برگ ریزاں سے کہو شہر سے باہر ٹھہرے
شہر کے باغ سے بستان دبستاں سے پرے
برگ لرزاں میں تڑپتا ہے ابھی ذوق نمو
پر طاؤس میں ہے رقص کی خواہش اب بھی
ابھی کرتا ہے چمن چاک گریباں کو رفو
یوں تو قانون ہیں فطرت کے اٹل
اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
سعئ ملبوس میں ہیں کتنے نگوں بخت زبوں
زندگی جن کے لئے صحن سمن پوش نہیں
دور کے دیس سے آئی ہوئی اترن کے لئے
مرد و زن کوچہ و بازار میں رسوا ہیں ابھی
جیسے ہو قہر مجسم تری یخ بستہ جبیں
تیری آہٹ میں ہو جیسے کسی دہشت کا پیام
تیری دستک سے لرزتے ہیں مکاں اور مکیں
وہ مکاں جن کے در و بام در و بام نہیں
وہ مکیں جن کے لئے عشرت ایام نہیں
جن کے لہجوں میں نہیں لذت گفتار کا رنگ
جن کی آواز میں ہیں تیرہ نصیبی کے عذاب
جن سے تہذیب لیا کرتی ہے جینے کا خراج
جن کی ہر سانس ہے اندیشۂ فردا کا نصاب
اس قدر تند نہ ہو دیکھ سنبھل
اے زمستاں کی ہوا تیز نہ چل
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 312)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (Issue No. 25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : Issue No. 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.