اے زہرہ جبیں ناچ
اے زہرہ جبیں ناچ مری زہرہ جبیں ناچ
لینن کی قسم آج تو دیوانہ بنا دے
ہاں میری نگاہوں سے نگاہوں کو ملا کر
ریشم سے یہ گیسو مرے شانوں پہ بچھا دے
لے دیکھ کہ لایا ہوں نئی قسم کے بندے
کل ریشمی ساری بھی تری نذر کروں گا
بیوی مری بیمار ہے اچھا ہے کہ مر جائے
اب میں تری زلفوں ہی کے سائے میں جیوں گا
ہاں جام اٹھا جام کہ کرتا ہے اشارے
یہ ابر یہ بل کھاتی پھواروں کا ترنم
کس ناز سے رہ رہ کے چمکتی ہے یہ بجلی
جیسے ترے ترشے ہوئے ہونٹوں پہ تبسم
یہ تیرے مدھر گیت یہ پائل کی چھما چھم
ہے ان کی بدولت ہی مری گرمیٔ افکار
یہ سیب سے رخسار یہ بادام سی آنکھیں
پاتے ہیں توانائی انہیں سے مرے اشعار
یہ تیرا خم و پیچ ترے رقص کے انداز
جیسے کسی مفلس کے تڑپنے کی ہو تصویر
لینن کی قسم یہ ترے گیسوئے پریشاں
جیسے کسی مزدور کی الجھی ہوئی تقدیر
کم ظرف ہیں دیتے ہیں طوائف کے جو طعنے
اے زہرہ جبیں اصل میں مزدور ہے تو بھی
لائے جو ترے پاس کھنکتے ہوئے سکے
خدمت کو ہر اس شخص کے مجبور ہے تو بھی
غربت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں مری جاں
میں سرخ سویرے کی دمک دیکھ رہا ہوں
ممکن ہے کہ مل جائے مجھے بھی کوئی عہدہ
امید کی ہلکی سی چمک دیکھ رہا ہوں
مزدوروں کے جلسے میں سنانی ہے مجھے آج
وہ نظم ممولے کو جو شاہیں سے لڑا دے
اسٹالن و لینن کی قسم جام کی سوگند
اے زہرہ جبیں پگھلی ہوئی آگ پلا دے
مہکی ہوئی سانسیں مری سانسوں میں سمو دے
صہبائے شفق رنگ کی مستی میں ڈبو دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.