اجنبی لمحے
ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے یہ اجنبی لمحے
کہیں ایسا نہ ہو پرچھائیاں دے کر گزر جائیں
ہمیں ڈستی ہوئی تنہائیاں دے کر گزر جائیں
ڈھلک جاتا ہے اک اک پل پہ سر سے ریشمی آنچل
کلائی میں سنہری چوڑیاں کھنکائی جاتی ہیں
چٹک اٹھتی ہوں جیسے نرم کلیاں شاخساروں پر
حنائی انگلیاں اس ناز سے چٹخائی جاتی ہیں
نشہ سا بھر دیا آنکھوں میں شرم اجنبیت نے
ادائیں اور زیادہ خوب صورت ہوتی جاتی ہیں
تعارف بے تعارف ہو چکا آؤ ہنسیں بولیں
کہ اب خاموشیاں بڑھ کر قیامت ہوتی جاتی ہیں
ملاقاتوں کے دامن میں تبسم بھی ہے آنسو بھی
قرار جاں میسر ہو کہ زخم دل ملے ہم کو
اڑے جاتے ہیں پر تولے ہوئے یہ اجنبی لمحے
خدا معلوم کس عالم میں مستقبل ملے ہم کو
مجھے تم اجنبی کہہ لو تمہیں میں اجنبی کہہ لوں
مگر اپنائیت کے تانے بانے بن رہا ہوں میں
مری خاموش نظروں کے تقاضے تم پہ واضح ہیں
تمہارے مرتعش ہونٹوں کے نغمے سن رہا ہوں میں
تمنا کے یہ لمحے جن میں گیرائی ہے صدیوں کی
ہماری روح کی خلوت سرا سے ہو کے آئے ہیں
زباں کھولو کہو میں ان حسیں لمحوں سے کیا کہہ دوں
یہ لمحے پوچھتے ہیں کیا ابھی تک ہم پرائے ہیں
ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے یہ اجنبی لمحے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.