اکڑ شاہ کاہلوں کا سردار
کیا کام جو بھی تو کھائی شکست
بالآخر ہوئی اس کی ہمت ہی پست
اکڑ شاہ بنتا گیا پوستی
محلے کے سستوں سے کی دوستی
سبھی سست مل جل کے رہنے لگے
مشقت وہ آپس میں سہنے لگے
انہی کاہلوں میں تھا اک مال دار
جو سستی کا تھا نسبتاً کم شکار
کہا اس نے سب کاہلوں سے سنو
تم اپنے لیے ایک افسر چنو
ہے اس کے لیے کون تیار اب
جسے ہم کہیں اپنا سردار اب
اٹھایا ہر اک سست نے سن کے ہاتھ
اکڑ شاہ شامل تھا ان سب کے ساتھ
مگر ہاتھ اس نے اٹھایا نہیں
زباں سے بھی اس نے بتایا نہیں
اکڑ شاہ سے پوچھا پھر ایک نے
کہ ہاتھ آپ کے کیوں نہیں ہیں اٹھے
اکڑ شاہ بولا اے میرے عزیز
امارت نہیں چھوڑ دینے کی چیز
مگر میرا سستی نے چھوڑا نہ ساتھ
فقط کاہلی سے اٹھایا نہ ہاتھ
سبھی اس کی سستی کے قائل ہوئے
اسی کی امارت پہ مائل ہوئے
اکڑ شاہ کو دی گئی ایک کار
اکڑ کر ہوا اس میں اک دن سوار
رکھی اس نے پہلے تو رفتار کم
مگر تیز کی اس نے پھر ایک دم
جو بیٹھے تھے ساتھی وہ حیراں ہوئے
کہ تیزی سے اس کی پریشاں ہوئے
پھر اک سست نے کر کے ہمت کہا
اچانک یہ تیزی ہے کیا ماجرا
اکڑ شاہ نے رہ کے چپ تھوڑی دیر
کہا اکسلیٹر پہ رکھا تھا پیر
مگر پھر جو سستی رکاوٹ بنی
تو رفتار گاڑی کی بڑھتی رہی
اسامہؔ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.