الف لیلہ
تھک گئی رات مسکنے لگا غازہ کا فسوں
سرد پڑنے لگیں گردن میں حمائل بانہیں
فرش بستر پہ بکھرنے لگے افشاں کے چراغ
مضمحل سی نظر آنے لگیں عشرت گاہیں
زندگی کتنے ہی ویرانوں میں دم توڑ چکی
اب بھی ملتی ہیں مگر غم کی فسردہ راہیں
جس طرح طاق میں جل بجھتی ہیں شمعوں کی قطار
ظلمت شب میں جگاتی ہوئی کاشانوں کو
بن کے رہ جاتی ہے تا صبح پتنگوں کا مزار
خون کے حرفوں میں تحریر ہے دیواروں پر
ان گھسٹتے ہوئے اجسام کے انباروں میں
درد کے رخ کو پلٹ دینے کا مقدور نہیں
فکر گھبرائی ہوئی پھرتی ہے بازاروں میں
عمر اک سیل عفونت ہے بدر رو کی مثال
زیست اک چہ بچہ سڑتا ہوا گدلا پانی
جس سے سیراب ہوا کرتے ہیں خنزیر و شغال
وقت کی جلتی ہوئی راکھ سے جھلسے ہوئے پاؤں
کی گھنی چھاؤں میں بیٹھے ہوئے دل
کرب ماضی کے گراں بوجھ سے ڈوبی نبضیں
لاکھ چاہیں پہ ابھرنے کا گماں لا حاصل
ایک موہوم سی حسرت میں جئے جاتے ہیں
نام ہی نام مسرت کا لیے جاتے ہیں
اپنی بے خواب تمنا کا فسانہ ہے یہی
کل کی شب اور نئی اور نئی شب ہوگی
زندگی ہوگی نئی اور کہانی بھی نئی
صبر اے دوست کہ ظلمت کی گھڑی بیت گئی
تھک گئی رات مسلنے لگا غازہ کا فسوں
سرد پڑنے لگیں گردن میں حمائل بانہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.