علی گڑھ چھوڑنے کے بعد
ہم نشیں رات کی مغموم خموشی میں مجھے
دور کچھ دھیمی سی نغموں کی صدا آتی ہے
جیسے جاتی ہوئی افسردہ جوانی کی پکار
جس کو سن سن کے مری روح لرز جاتی ہے
جیسے گھٹتی ہوئی موجوں کا اترتا ہوا شور
مطربہ جیسے کوئی دور نکل جاتی ہے
یا ہواؤں کا ترنم کسی ویرانے میں
جیسے تنہائی میں دوشیزہ کوئی گاتی ہے
میں بہت غور سے نغمات سنا کرتا ہوں
سچ تو یہ ہے کہ مری جان پہ بن جاتی ہے
بار بار اٹھ کے میں جاتا ہوں صداؤں کی طرف
لیکن اک شے ہے جو واپس مجھے لے آتی ہے
چونک اٹھتا ہوں جب اس خواب سے حیراں ہو کر
پھر مجھے دوسری دنیا ہی نظر آتی ہے
آہ، وہ بھوک کے مارے ہوئے افراد ہنسیں
جن کی صورت پہ قناعت بھی ترس کھاتی ہے
جیسے اجڑی ہوئی محفل کے کچھ افسردہ چراغ
روشنی میں جنہیں ہر گام پہ ٹھکراتی ہے
آہ وہ حضرت انسان ہی کا درد و ستم
جس کا اظہار بھی کرتے ہوئے شرم آتی ہے
وہ ترانے جو سنا کرتا ہوں تنہائی میں
ان ترانوں میں مجھے بوئے وفا آتی ہے
گاؤں گا نغمے وہ تعمیر محبت کے لیے
مے کدہ چھوڑ دیا جن کی اشاعت کے لیے
- کتاب : Kulliyat Shakeel (Pg. 333)
- مطبع : Fareed Book Depot Pvt. Ltd.
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.