الوداعی ملاقات کے بعد
بے یقینی کے زینے پہ چلتے ہوئے
اس نے باہر قدم جو نکالا
تو کیفے کی دیوار سے دیکھتی
مونالیزا کے چہرے پہ
صدیوں سے پھیلا تبسم بھی
اک پل کو گہنا گیا
ٹینا ثانی کی آواز کے سائے میں
اس کے ہونٹوں کی جنبش
سرابوں سی محسوس ہونے لگی
اس کی آنکھوں پہ چھائی ہوئی دھند
چاروں دشاؤں میں اڑنے لگی
بے یقینی کا زینہ قدم بہ قدم
اس کے پیروں کے ہم راہ بڑھنے لگا
آہ کھینچی اور اس نے
دو عالم کی ساری اداسی کو
اپنے بدن میں سمیٹا تو سوچا
کہ کہرہ اداسی کا ہم زاد ہے
یک بہ یک
ضبط کی آمریت کے باغی
کسی خواب نے
اس کی پلکوں کے زنداں سے
کود کر خود کشی کی تو
مفرور آنسو قطاریں بنا کر نکلنے لگے
گول چکر پہ روشن کسی قمقمے کے
اجالے میں گیندے کے پھولوں نے
جب اس کے گالوں پہ گرتی ہوئی
اوس دیکھی تو مرجھا گئے
سرمئی گھاس نے
سال کی آخری شام
میں آج پہلی دفعہ
اس کو خاموش دیکھا
تو نم ہو گئی
چاروں جانب اترتی ہوئی دھند نے
خود کو کچھ اور بوجھل کیا
اس کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کیا
اور وہ لڑکی کہیں کھو گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.