Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امانت

MORE BYوسیم بریلوی

    یہ ماضی جو مری تنہائیوں کے ساتھ رہتا ہے

    یہ اک نادان بچے کی طرح تنہائی کو

    اشارہ کرتا ہے ٹھوڑی پکڑ کر اور کہتا ہے

    وہ دیکھو گاؤں کے سینے پہ سر رکھے ہوئے سرسوں

    تمہاری کمسنی کھیلی ہے جس کی گود میں برسوں

    نقوش پا سے اب تک ہر گلی کی مانگ روشن ہے

    ابھی تک گود پھیلائے ہوئے ڈیرے کا آنگن ہے

    رسیلی جامنوں کے پیڑ کی کمزور شاخوں نے

    تمہاری انگلیوں کا ہر نشاں محفوظ رکھا ہے

    لبوں پر جھیل کی گہرائیوں کے ہے بس اک شکوہ

    کہ جب سے تم گئے ہو کوئی بھی ہم تک نہیں پہنچا

    کنارے جھیل کے وہ پیڑ اب تک منتظر سا ہے

    کب آؤ گے یہاں کپڑے اترو گے نہاؤ گے

    یہ ماضی جو مری تنہائیوں کے ساتھ رہتا ہے

    یہ اک نادان بچے کی طرح تنہائی کو

    اشارہ کرتا ہے ٹھوڑی پکڑ کر اور کہتا ہے

    وہ دیکھو گاؤں کے کھلیانوں میں سویا ہوا جادو

    نشیلی رات کی رانی وہ لو دیتی ہوئی خوشبو

    دیوں کا دھیمی دھیمی روشنی دینا دھواں دینا

    شکستہ جھونپڑوں کا زندگی کو لوریاں دینا

    کھنکتی ہیں رسوئی گھر میں الھڑ چوڑیاں اب تک

    بھرا کی پولیاں لاتی ہیں سر پر بوڑھیاں اب تک

    کے کنارے کچی اینٹوں سے بنا مندر

    سلگتے کنڈوں سے اٹھتی دھوئیں کی ملگجی چادر

    ہرے کھیتوں کی مینڈوں پر سلگتے جسم کے سائے

    لرزتے ہونٹھ گھبرائی ہوئی سانسوں کے افسانے

    لچکتی آم کی شاخوں پہ بل کھائے ہوئے جھولے

    کسی کا بھاگنا یہ کہہ کے کوئی ہے ہمیں چھو لے

    یہ دیکھو زندگی کتنی حسیں ہے کتنی بھولی ہے

    اسی آغوش میں آ جاؤ جس میں آنکھ کھولی ہے

    یہ ماضی جو مری تنہائیوں کے ساتھ رہتا ہے

    یہ کہتا ہے کہ میں گزری ہوئی باتوں میں کھو جاؤں

    تمہاری زلف سے مہکی ہوئی راتوں میں کھو جاؤں

    اسے میں کیسے سمجھاؤں کہ اب یہ سانس کا ڈورا

    اک ایسی دھار کی تلوار ہے جس پر گزرنا ہے

    مجھے اور زندگی کے زخم کو ٹانکے لگانا ہیں

    اسے میں کیسے سمجھاؤں کہ یہ ماضی کی تصویریں

    اب اک ایسی امانت ہیں جسے میں رکھ نہیں سکتہ

    اگر رکھوں تو ناکارہ نکما کہہ کے یہ دنیا

    مجھے ٹھوکر لگا دے اور خود آگے کو بڑھ جائے

    مری پس ماندگی پر ہر نذر اٹھے ترس کھائے

    مجھے مردہ عجائب گھر کی ایسی مورتی سمجھے

    جو سب کو اس لیے پیاری ہے کہ کافی پرانی ہے

    یہ ماضی جو مری تنہائیوں کے ساتھ رہتا ہے

    اسے میں کیسے سمجھاؤں کہ یہ ماضی کی تصویریں

    اب اک ایسی امانت ہیں جسے میں رکھ نہیں سکتہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے