کئی سال ہوئے میری زندگی
خزاں آلود ویران سڑکوں
پتھروں سے بنی تاریک خالی گلیوں
سنسان جنگلوں
اور جاڑے میں جمتے کالے دریاؤں کے کنارے گزر رہی ہے
وہی دریا جن میں میں نے
عقیدتوں میں باندھے کئی تعویذ سمجھوتے کے نام پر بہا دیے
وہی سڑکیں جن کی ویرانی کے سپرد میں نے
محبتوں میں باندھے کئی وعدے کیے
وہی گلیاں جن کے پتھروں پہ میں نے
خواہش کی ہر شکل توڑ دی
وہی جنگل جس کی خاموشی میں میں نے
ہر صدائی کی دعا دفنا دی
مگر کالے دریا اکثر مجھے آئینہ دکھانے آتے ہیں
جس میں یاد داشتوں سے ابھرتے چہروں کے نقشے بنتے ہیں
پھر موسمی بارشوں کا کوئی ریلا آتا ہے
اور سبھی گزشتگان کو پلک جھپکے بہا لے جاتا ہے
پھر تنہائی کے ساحلوں پر میرے پیر
ہونیوں کی باقیات سے ٹکراتے ہیں
کچھ وجود مخملیں احساس بخشتے ہیں
باقی کے اسباب پاؤں میں خار کی طرح چبھتے ہیں
ننگے پاؤں زندگی گزارنا آسان نہیں
کہ روح کی فنا کا عمل کہتے ہیں
پاؤں کے انگوٹھے سے شروع ہوگا
جان نکلنے کا منظر نامہ جتنا بھی ہولناک ہو
کچھ روحیں کبھی فنا نہیں ہوتیں
اور بے چینی ان میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.