کل جو سپنے تھے ادھورے آج پورے ہوں گے وہ
آج ہم جمہوریت کا گیت گائیں گے ضرور
امن کی شمعیں جلیں ہر سو اجالا ہو گیا
مٹ گئے ہیں ظلم کی تاریکیوں کے سب غرور
کہہ دو ساری ظلمتوں سے تلخیوں سے ہوں وہ دور
کیوں کہ ارزاں ہو گئی ہے دہر میں صہبائے نور
آج پھر تاریکیوں کے مٹ ہی جائیں گے نشاں
دیپ خوشیوں کے جلیں گے بستیٔ غم خوار میں
خود بخود منزل کھنچی آئے گی قدموں کے تلے
عزم نو کی خو بھی شامل ہوگی جب اطوار میں
متحد ہے کتنا بھارت دہر کو بتلائیں گے
عظمت جمہوریت دنیا کو ہم دکھلائیں گے
ایک ہی دیوار کے سائے میں ہیں دیر و حرم
ہاں وہی بھارت ہے یہ جو امن کی تصویر ہے
گوتم و گاندھی جواہر لال اور آزاد نے
دیکھا تھا جو خواب پہروں اس کی یہ تعبیر ہے
کہہ دو دنیا سے حسیں کردار بھی اب سیکھ لے
آئے ہم سے امن کے اطوار بھی اب سیکھ لے
آج وہ دن ہے کہ جس دن کے لیے تھے خوں بہے
چندر شیکھر اور بھگت سنگھ اور پھر گاندھی کے خون
اور ہاں جوہر علی مختار و سید تھے وہی
تھا سدا جن کے دلوں سے سر کٹانے کا جنون
دیش کی خاطر ہوا جن کا جنم اور موت بھی
موت جن کی موت پہ روتی رہی روتی رہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.