وہ کویتا
ابھی ہے مرے ذہن کی دھند میں جو
ہزاروں دلوں سے نچوڑی ہوئی سادگی
اور ہونٹوں سے چھینے ہوئے
قہقہوں میں رچی ہے
مگر کوئی کیسے لکھے وہ کویتا
کہ اب انگلیوں سے ٹپکنے لگا ہے لہو
اور زباں
منجمد خون کے ذائقے سے تڑخنے لگی ہے
یہ ممکن ہے
وہ خون میرا ہو یا ہو کسی اجنبی کا
مگر اس سے کیا خون تو خون ہی ہے
کسی فلسفی سوچ کی تال پر
ڈولتی گردنیں کہہ رہی ہیں
ادھر کالی کالی فصیلوں کے پیچھے بڑی روشنی ہے
مگر جانے کیوں
روشنی کی کوئی نئی آیت
اب تک مری آنکھ کی پتلیوں کے رسولوں پہ اتری نہیں
تو شاید میں آسیب ہوں
دشت احساس کا اور بھٹکتا ہوں
جیسے کوئی روح پیاسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.