سمٹتے ہوئے سایوں کے فرش پر
دیر سے یوں ہی بیٹھا ہوا ہوں
کہ گزرے کوئی قافلہ جادۂ روز و شب سے
تو پوچھوں کہ درماندگی کی سزا کیا ہے مجھ کو بتاؤ
مگر ڈر رہا ہوں کہ کوئی مسافر
مری بات پر مسکرایا تو میں کس طرح جی سکوں گا
مری زندگی ایک سرکش انا ہے
پرندے کی صورت عناصر کے زر کار پنجرے کی زینت
مری روح بھی جادوگر کی طرح
اس انا اس پرندے کے قالب میں خلوت نشیں ہے
کسی کو وہ دشمن ہو یا دوست
میں پنجرے کی تیلیوں تک پہنچنے دوں
یہ کس طرح ہو سکے گا
کسے یہ خبر ہے کہ میں خود کو بھی
اپنا دشمن سمجھنے لگا ہوں
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 34)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.